Breaking News

کیا ن لیگ کو سات خُون معاف ہیں؟



جب ن لیگ کا دفاع کرنے کے لیے جاوید ہاشمی جیسے ذہنی علیل لوگوں کا باقی رہ جانا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان چراغوں میں روشنی نہ رہی، ان تلوں میں اب تیل کہاں اور چڑیاں چُگ گئی کھیت۔۔ ہاشمی صاحب اگلی بات کر کے پچھلی بات بھُول جاتے ہیں، اور آج جمہوریت سمجھاتے ہوئے قوم کو بتا رہے تھے کہ سپریم کورٹ کو سنجیدگی سے مت لیں۔ یہ تو آلہ کار ادارہ ہے۔ واہ ۔۔ یہی دیکھنا باقی رہ گیا تھا، اگر نہال ہاشمی کی ہرزہ سرائی کے خلاف کوئی موثر کاروائی ہوتی تو شاید جاوید ہاشمی جو اتنی جرات بھی نہ ہو پاتی۔


نوازشریف کی نا اہلی کا فیصلہ آیا تو اسی دن اٹھائیس جولائی کو ن لیگی وزراء کے نامناسب بیانات کیخلاف کاروائی کا اعلان کیا گیا تھا، اس پہ ابھی تک کوئی ٹھوس کاروائی نہیں ہو سکی ہے۔ جیو اور جنگ کے صحافیوں نے صحافت کے نام پر جو بہتان بازی اور جھوٹ کا بازار گرم رکھا، اس پہ بھی ایکشن لیے جانے کا عندیہ دیا گیا تھا، ابھی تک کوئی خاطر خواہ کاروائی دیکھنے کو نہیں مل سکی ہے سوشل میڈیا پہ تین ماہ سے لگاتار ججز کو گالیاں دینے، انکے خاندان کو دھمکانے اور بکاؤ یا مہرہ قرار دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مہم کے پیچھے کون لوگ ہیں ؟ یہ کوئی بڑے راز کی بات نہیں۔ میڈیا ٹاک شوز میں ن لیگی وزراء کھلے عام سپریم کورٹ پر جانبداری کے الزامات صادر کر رہے ہیں۔ پریس کانفرنس اور میڈیا ٹاک کے ذریعے احتسابی عمل کو انتقامی سیاست کا نام دے رہے ہیں۔ آج کی صورتحال جب احتساب عدالت کے جج کو کاروائی مکمل نہ کرنے دی گئی، ن لیگ نے منصوبہ بندی کے ساتھ عدالت پر دھاوا بول دیا اور مصنوعی طریقے سے حالات کو ناسازگار بنا دیا۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب بدتمیزی، تضحیک، تذلیل، پروپیگنڈہ مہم اور حملہ آور کے باوجود کسی کو بھی موثر سزا کیوں نہیں دی گئی ؟ کیا ن لیگ کو سات خون معاف ہیں یا پاکستان سے توہین عدالت کا قانون ختم ہو چُکا ہے؟


قوم کو یاد دلاتا چلوں کہ، عمران خان کی طرف سے ریٹرنگ آفیسر کے لیے یا مبینہ طور عدالتی کاروائی کے لیے استعمال کیا گیا، لفظ شرمناک بھی توہین عدالت ہوا کرتا تھا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے سخت ایکشن لیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہمارے سیاستدان عدالت کے لیے شرمناک جیسا لفظ استعمال کرینگے تو یہ غلط روایت پڑ جائے گی۔ عمران خان نے بارہا کہا کہ وہ لفظ عدالت کے لیے نہیں تھا مگر معافی مانگ کر کیس کو ختم کرنا پڑا۔ سوشل ایکٹیویسٹ قاضی جلیل کیساتھ ہونیوالا معاملہ ہو یا فیس بُک پوسٹ میں ایک جج پہ کرپشن کا الزام لگانے پہ ڈی آئی خان سے گرفتار ہو جانیوالا لڑکے کا معاملہ ہو۔۔ ن لیگ کے ہی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ایک لسٹ جاری کر دی تھی جنہوں نے ڈان لیکس سیٹلمنٹ کے بعد ٹویٹر اور فیس بُک پہ تنقیدی پوسٹس لگا دی تھیں۔۔ مگر اب سب وہ کاروائیاں وہ ایکٹ اور وہ گرفتاریاں کہاں ہیں ؟


عدالت کی طرف سے بیانات تو خُوب آتے ہیں، تحقیقات بھی ہوتی ہیں، رپورٹ شائع ہو جاتی ہے اور حتی کہ فیصلے بھی آ جاتے ہیں۔ مگر سوال ہے کہ ملکی اشرافیہ کی اس کھلم کھلا غنڈہ گردی کے خلاف سزا کا اعلان کب ہو گا ؟ سزا پر عملدرآمد کب ہو گا ؟ کیا عدالت کو گمراہ کرنے کی سزا مریم نواز کو ملے گی جس نے جعلی دستاویزات جمع کروائیں؟ کیا ن لیگی وزراء پر توہین عدالت ایکٹ لگے گا ؟ کیا نوازشریف سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے گی ؟ کیا اقتدار میں رہ کر منی لانڈرنگ کرنیکی سزا بھگتیں گے ؟


پاکستان میں سزا ملنے کی روایت کا آغاز کب ہو گا ؟
اسلامی ریاست کا جو تصور ہمیں اسلام نے دیا ہے اُس میں بھی ریاست کا مجرم کو فوری سزا دینا لازم ہے۔ یہ اصول عقل کے تقاضوں پہ بھی پورا اترتا ہے کیونکہ جن معاشروں میں سزائوں کو فوری عمل میں لایا جاتا ہے، وہاں ان سزائوں کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ اور پاکستان کی طرح جن معاشروں میں سزائیں عمل میں لانے کا ہی تصور ٹھیک سے نہیں فروغ پا سکا، وہاں جرائم کی شرح بھی زیادہ ہونا کسی اچنبے کی بات نہیں۔
پچھلے ڈیڑھ سال سے ہم پاکستان میں صرف یہ تبدیلی لا سکے ہیں کہ۔۔ عوام اب یہ سمجھتے ہیں کہ کرپشن بُری چیز ہے، طاقتور طبقے کا بھی احتساب ہو سکتا ہے، ان کو نا اہل کیا جا سکتا ہے اور ان کے خلاف فیصلہ سُنایا جا سکتا ہے۔ اور بس ؟ اکثریت کے لیے یہ بات ہولوکاسٹ کی مانند ہے کہ کرپشن ثابت ہو جانے پہ اشرافیہ کو سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیے، بلکہ دور مت جائیے صرف دوست ہمسایہ ملک چین میں پچھلے دس برسوں میں جن کرپٹ لوگوں کو پھانسی دی گئی اُن کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ بقول حبیب جالب:


میں نے اس سے یہ کہا
چین اپنا یار ہے، اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام، اس طرف نہ جائیو !

:13:





from Siasat.pk Forums http://ift.tt/2ghR5MH

No comments